جناب حکیم طارق محمود چغتائی صاحب !السلام علیکم! بفضلہ تعالیٰ آپ کا دستِ شفقت ہمیشہ ہم جیسے نالائقوں کے سر پر قائم رہے آمین۔ رب العزت اپنی بارگاہ میں آپ کا روحانی/ دنیاوی رتبہ بلند رکھے اور آپ اسی طرح خدمتِ خلق فرماتے رہیں ۔ آپ نے تاکید فرمائی تھی کہ ہم لوگ زندگی کے کچھ تجربات /مشاہدات ضرور لکھیں تواس حوالہ سے میں ایک آپ بیتی آپ کی خدمت اقدس میں بھیج رہا ہوں۔ بظاہر یہ چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن جب بھی وہ لمحات یاد آتے ہیں تو کانپ اٹھتا ہوں۔ وہ لمحات میں کبھی نہ بھولوں گا۔ اگست 1992ءمیں مجھے کسی کام کے سلسلہ میں راولپنڈی سے جنوب کی طرف اڈیالہ روڈ پر تقریباً 25 کلومیٹر دور ایک گاﺅں میں جانا پڑا۔ میں نے پروگرام بنایا کہ ظہر کی نماز کے بعد جاﺅں گا اور مغرب تک واپس آ جاﺅں گا۔ کیونکہ اپنی گاڑی سے جانا ہے اور سفر بھی کوئی زیادہ نہیں ہے۔ اس طرح 3 بجے میں گھر سے چل پڑا۔ جب اڈیالہ جیل سے چند کلو میٹر آگے گیا جہاں سے کچھ پہاڑی علاقہ شروع ہوتا ہے۔ وہاں دیکھا کہ بارش کی وجہ سے جو اس دن صبح ہوئی تھی لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے اور کافی مٹی اور کیچڑ سڑک پر پڑا ہے اور سڑک بند ہے۔ یہ ایسی جگہ تھی کہ یہاں سے کوئی اور راستہ آگے جانے کیلئے نہیں تھا۔ مجبوراً گاڑی روک کر نیچے اترا اور جائزہ لینے لگا کہ کس طرح گاڑی یہاں سے گزاری جائے لیکن کوئی ترکیب نہ سوجھی۔ کافی دیر کھڑا رہا۔ اتنے میں ایک بس آتی ہوئی دکھائی دی جس نے اسی گاﺅں جانا تھا جہاں کا ارادہ میرا بھی تھا۔ اچانک خیال آیا کیوں نہ بس سے پہلے میں اپنی گاڑی کیچڑ سے نکالنے کی کوشش کروں‘ اگر پھنس گئی تو کوئی مسئلہ نہ ہوگا کیونکہ بس نے بھی تو اسی جگہ سے گزرنا ہے وہ لوگ پہلے میری گاڑی نکالیں گے تو بس گزر سکے گی۔ اس طرح میں نے گاڑی تیزی کیساتھ اس کیچڑ میں ڈال دی۔ پھر کیا تھا گاڑی کے چاروں پہیے پوری طرح کیچڑ میں دھنس چکے تھے اور صرف باڈی کیچڑ کے اوپر پڑی تھی۔ اتنی دیر میں وہ بس میرے قریب پہنچ چکی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ابھی یہ لوگ آئیں گے پہلے میری گاڑی نکلوائیں گے پھر خود گزریں گے۔ لیکن دیکھتا کیا ہوں کہ وہ بس میری طرف آنے کی بجائے تقریباً 100 گز پہلے ہی ٹیلے کے اوپر کی طرف چڑھ گئی اور پہاڑی ڈھلوان سے آہستہ آہستہ گزر کر آگے نکل گئی ۔ یہ دیکھ کر مجھے اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا اور منہ پھلا کر بیٹھ گیا۔ در اصل اسی دن لوگوں نے وہ عارضی ٹریک بنایا تھا جو میرے علم میں نہ تھا۔ اب بہت پریشانی لاحق ہوئی اور اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ کاش تھوڑی دیر صبر کر لیتا اور بس کو گزرتا ہوا دیکھتا۔ یہاں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ انہی دنوں مجھے ایک درویش صفت آدمی ملا جو واقعی ان اللہ کے بندوں میں سے ایک تھا جن کے متعلق قصے اپنی اسلامی کتابوں سے ملتے ہیں نہ ہی علماءاور پیروں والا رکھ رکھاﺅ نہ ہی وہ چال ڈھال بالکل مسکین سے ‘ ایسے بندے آجکل ناپید ہیں وہ مجھے کب اور کیسے ملے یہ الگ داستان ہے۔ انہوں نے مجھے ایک قصہ سنایا تھا کہ اس طرح ایک اللہ کا بندہ جنگل میں جا کر بیٹھ گیا کہ دیکھتا ہوں مجھے کیسے اللہ رزق پہنچاتا ہے ‘ وہاں کچھ ڈاکویا مسافر آئے انہوں نے اس بندہ خدا سے کہا کہ لو بھائی ہمارے ساتھ کھانا کھاﺅ اس نے انکار کیا۔ پھر ان لوگوں نے زبردستی اس کے منہ میں نوالے ٹھونسنے شروع کر دیئے وغیرہ ۔ تو میں نے انہیں کہا تھا کہ جناب آج کل نہ ہی وہ بندے ہیں اور نہ ہی ویسے چور یہ بہت پرانی باتیںہونگی۔ کہنے لگے نہیں آج بھی وہی اللہ ہے۔ میں نے عرض کیا تو ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں۔ فرمانے لگے لوگ حلال نہیں کھاتے ۔ میں نے عرض کیا کہ جناب یہ خاکسار پارسائی کا دعویدار نہیں کوئی ایسی نیکی بھی نہیں جو قابل بیان ہو نہایت گناہگار اور خطا کار ہوں لیکن الحمد للہ میں جو تھوڑا بہت کماتا ہوں وہ یقینا حلال ہے اور میں کافی حد تک مطمئن ہوں۔ فرمانے لگے اگر یہ بات ہے تو جاﺅ درودِ ابراہیمی کثرت سے پڑھا کرو کم از کم 300 مرتبہ روزانہ پھر دیکھتے جاﺅ کہ کیا ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے۔ معذرت! بات ذرا لمبی ہو گئی ‘ اب اس موضوع کی طرف آتے ہیں ۔ مغرب کا وقت قریب تھا سورج ٹیلوں کے پیچھے غروب ہو گیا تھااور آہستہ آہستہ اندھیرا پھیلنا شروع ہو گیا۔ بیاباں جگہ تھی اس وقت وہاں قریب کوئی آبادی نہ تھی۔ بہت مشکل میں پھنس چکا تھا۔ خیر نہایت ہی پریشانی کی حالت میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں۔ اچانک اس درویش کی بات یاد آئی اور میں نے سوچا کہ چلو آج آزماتا ہوں۔ چنانچہ میں نے درُودِ ابراہیمی پڑھنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ دل میں ہی اپنے رب سے باتیں کرنے لگا کہ اے پروردگار تو سچا ہے۔ تیرے نیک بندے بھی سچے ہیں اگر وہ درویش جس نے مجھے قصہ سنایا تھا اور درُودِ ابراہیمی پڑھنے کا کہا تھا اگر وہ واقعی تیرا دوست ہے تو آج مجھے دکھا دے تاکہ مجھے یہ یقین ہو جائے کہ وہ درویش واقعی ابدالِ وقت ہے (جیسے مجھے کسی نے بتایا ہوا تھا) اور یہ بھی یقین ہو جائے گا کہ اے میرے رب تو آج بھی ہم جیسے نالائقوں کی سنتا ہے۔ بس یہ خیال کر کے درُودِ ابراہیمی پڑھنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد خیال آیا کہ ” پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر اللہ پر توکل کرو“۔ ذہن میں یہ بات آئی کہ اے بندہ نادان تو کس چکر میں پڑ گیا ہے۔ ابھی کچھ روشنی ہے رات ہونے والی ہے اٹھو کسی ٹریکٹر والے کو بلاﺅ تاکہ گاڑی کھینچ کر نکالی جائے۔ اس طرح میں اٹھ کھڑا ہوا اور ایک قدم ہی بڑھایا تھا کہ دماغ میں بجلی کی طرح آیا کہ اگر میں نے خود ہی دنیاوی اسباب کیلئے کوشش کرنی ہے تو .... درویش.... اور....اللہ کی مدد.... کیسے پتہ چلے گا (نعوذ باللہ) پھر وہیں بیٹھ گیا اور دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ اب چاہے بھوکا پیاسا اسی جگہ مر جاﺅں نہ تو یہاں سے ہلوں گا اور نہ کسی سے کہوں گا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کی بات کو بھی جانتا ہے اس لئے جب میرے پروردگار نے دیکھا کہ یہ بد بخت ڈھیٹ انسان بہت جلدی میںہے اور ابھی سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے تو اس قادرِ مطلق نے بھی دیر نہ کی۔ سبحان اللہ و بحمدہ سبحا ن اللہ العظیم۔ اچانک ایک سفید رنگ کی فورڈ ویگن ( جس طرح کی ویگنیں اس روٹ پر اس وقت چلتی تھیں) آتی ہوئی دکھائی دی اب میں سوچنے لگا کہ یہ ویگن بھی اسی بس کی طرح پہاڑی ڈھلوان سے گزر جائے گی لیکن ہوا کیا کہ وہ ویگن اسی جگہ پر آ کر رُک گئی ۔ ڈرائیور کہنے لگا سب اتر جاﺅ میں نے آگے نہیں جانا ۔ سواریوں نے توتکار کی اور لوگ کہنے لگے کہ آگے نہیں جانا تو ہمارے پیسے واپس کرو ۔ چنانچہ ڈرائیور نے ان لوگوں کو پیسے واپس کر دیئے ان میں سے ایک جو بڑا رُعب دار تھا مجھے کہنے لگا کہ یہ گاڑی تمہاری ہے۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ میں نے تہیہ کیا ہوا تھا کسی کو نہیں کہوں گا بس اللہ ہی میری گاڑی نکالے گا۔ چند لمحوں بعد اس نے پھر کہا یہ گاڑی تمہاری ہے ‘ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اتنے میں اس آدمی نے مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر دھکیل دیا اور کہنے لگا کہ گاڑی اسٹارٹ کرو۔ جونہی گاڑی اسٹارٹ ہوئی ابھی میں نے گیئر بھی نہ لگایا تھا کہ گاڑی آرام سے کیچڑ سے پار ہو گئی جیسے ہم کسی کھلونے کو اٹھا کر کسی دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔ میں گاڑی سے باہر نکلا حیرانگی سے کبھی گاڑی کو دیکھتا ہوں کبھی ان لوگوں کو اور اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ واقعی اتنی بری طرح پھنسی ہوئی گاڑی بغیر کسی جھٹکے اور تردّد کے اتنی آسانی سے پار ہو گئی ہے۔ بہرحال میں نے ان لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور یہ بھی ان سے گزارش کی کہ چلیں میں آپ کو اپنی گاڑی میں وہاں تک لے جاتا ہوں کیونکہ میں بھی ادھر ہی جا رہا تھا لیکن وہ لوگ جو تعداد میں صرف 6‘ 7 تھے کہنے لگے کہ تم جاﺅ ہماری فکر نہ کرو ہم چلے جائیں گے۔ میں بہت حیران ہوا کہ ابھی تو یہ ڈرائیور سے جھگڑا کر رہے تھے کہ ہمیں آگے لے کر چلو اور ابھی میرے ساتھ جانے کو تیار بھی نہیں۔ مجھے حیران دیکھ کر وہ آدمی کہنے لگا کہ اچھا اگر تم لے جانا ہی چاہتے ہو تو یہ دو آدمی ساتھ لے جاﺅ بس۔ چنانچہ میں نے دو آدمیوں کو ساتھ بٹھا لیا اور وہاں سے چل پڑا لیکن جب تقریباً 200 گز آگے گیا ہوں گا تو وہ آدمی کہنے لگے کہ ہمیں یہیں اتار دو بس ہم نے یہاں تک ہی آنا تھا۔ میں پھر حیران و پریشان کہ یہاں تو قریب کوئی آبادی بھی نہیں ہے۔ معلوم نہیں یہ لوگ کون ہیں اور کدھر جائیں گے۔ ان کو اتار کر جب میں چند قدم آگے چلا تو پیچھے مڑ کر دیکھا وہاں کسی بندے کا کوئی نام و نشان بھی نہ تھا حالانکہ وہ جگہ بھی تھوڑی کھلی کھلی سی تھی۔ گاڑی روک کر پھر میں نے ادھر اُدھر ان کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہاں سنسان بیابان ہی تھا۔ یہ سب کچھ چند منٹوں میں ہو گیا جیسے میں نے کوئی خواب دیکھا تھا۔ میں دوبارہ ا پنی گاڑی میں بیٹھا اور اس واقعہ کے بارے میں سوچنے لگا کہ ایک دم میری آنکھوں سے آنسو گرنے لگے کہ سبحان اللہ واقعی تو سنتا اور مدد کرتا ہے۔ بہتے آنسوﺅں کے ساتھ میں اگلی منزل کو چل پڑا۔ یہ واقعہ جب بھی یاد آتا ہے تو لگتا ہے کہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے۔ مختصر کرتے ہوئے بھی کافی لمبا ہو گیا ہے لیکن یہ سب بالکل سچ ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 223
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں